Maktaba Wahhabi

312 - 453
الغرض ہم مسلمان ہیں ایک مسلم کی حیثیت سے سوچیں کہ کیا ہم رائے کے اظہار میں آزاد ہیں ؟ یا شرعی طور پر ہم پر کچھ پابندیاں ہیں جنہیں خاطر میں لانا ضروری ہے ۔ اسلام میں آزادئ اظہارِرائے کے اصول و ضوابط پہلا اصول : اسلام نے کس میدان میں اظہار رائے کی آزادی دی ہے ؟ جو بھی حکم ، فیصلہ ، یامسئلہ شرعی نصوص سے ثابت ہو ،چاہے اس کا تعلق عبادات و معاملات سےہو یا حدود وتعزیرات سے یاپھر خانگی اور عائلی معاملات سے اس بارے میں اسلام نے حکم دیا ہے کہ اس کے خلاف اظہار رائے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : {وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا} [الأحزاب: 36] ’’اور (دیکھو،) کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ سزاوار نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول (ان کے بارے میں) کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو (وہ اپنی رائے کو دخل دیں اور) اس معاملے میں ان کا (اپنا) اختیار (باقی) رہے۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کسی فیصلے پر رائے زنی تو کجا اس سے متعلق دل میں کجی رکھنا بھی انسان کو ایمان سے دور کردیتاہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : {فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا} [النساء: 65] ’’پس (اے پیغمبر،) تمہارے رب کی قسم، یہ (کبھی) مومن نہیں (ہو سکتے) جب تک کہ اپنے باہمی جھگڑوں میں یہ تمہیں حَکَمْ نہ بنائیں اور جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں ذرا بھی تنگی نہ پائیں اور (دل و جان سے اس کو) تسلیم نہ کرلیں ۔‘‘ قرآن وسنت کے دلائل اور ائمہ سلف کا اتفاقی فیصلہ ہے کتاب وسنت کے کسی فیصلے پر نقد کرنا اسے رد کرنا جائز نہیں جو ایسا کرے گا گویا وہ حق سے نکل گیا اور اس نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے
Flag Counter