Maktaba Wahhabi

371 - 453
اسی طرح صحابہ کرام بھی آپس میں ہنستے کھیلتے اور دل لگی کی باتیں کرتے تھے۔ کیونکہ تفریح کرنا کوئی ناجائز کام نہیں بشرطیکہ اسے مستقل عادت نہ بنالیا جائے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگے اور یہ بھی مناسب نہیں کہ لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ سے کام لے ۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’تباہی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی باتیں کرتا ہے ۔ اس کے لیے تباہی ہے۔ اس کے لیے تباہی ہے‘‘۔[1] اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ لوگوں کی قدر ومنزلت اور عزت کا خیال نہ رکھے اور ان کا مذاق اڑانے لگے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: [يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْہُنَّ][الحجرات:11] ترجمہ: اے ایمان والو! مرد دوسرے مرد وں کامذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے،اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتاہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، بسا اوقات اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرماتے تھے۔ ذیل کی احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کا پرشفقت مزاح کس طرح ہواکرتا تھا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مزاح کی چند مثالیں : ابوہریرہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایاکہ :’’میں
Flag Counter