Maktaba Wahhabi

397 - 453
میں اکثریت جوانوں کی تھی جنہوں نے دل و جان سے اسلام کو قبول کیا اور پھر نشر اسلام اور دفاع اسلام کے لئے کمربستہ ہوگئے۔بہر حال ان تمام روایات سے اور اس تفصیل سے جوانی کی اہمیت آشکارہوتی ہے ۔ نوجوانوں کے کرنے کے کام انسانی زندگی کے تمام مراحل میں سب سے اہم مرحلہ یہی جوانی ہے ، لہذااس عمرمیں جو کام ہوسکتے ہیں زندگی کے کسی مرحلےمیں نہیں ہوسکتے،اس لئے چند ایسے کام بیان کئے جاتے ہیں،جو پوری زندگی میں بالعموم اور وہ کام جوانی کی عمر میں زیادہ احسن انداز میں کئے جاسکتے ہیں۔ تعلیم اور تعلّم جوانی کی عمر علم سیکھنے کی عمر ہےاور ایسا علم کہ اس پر عمل بھی ہو۔یہ کام جوانی میں بطریق احسن ہوسکتا ہے۔ جب جسم کے دیگر اعضاء کی طرح دماغ بھی جوان ہوتا ہے۔اور پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ علم حاصل کیاجاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب صفہ بھی اکثر نوجوان تھے۔ابوذر غفاری ،بلال رضی اللہ تعالیٰ عنھما وغیرہ اسی زمرے کے ہیں۔جس صحابی کی شادی ہوجاتی اور عائلی ذمہ داریاں غالب آجاتیں وہ اس زمرے سے نکل جاتا۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملازم شاگرد جناب ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بھی جوانی کی عمر میں تھے۔ قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر کم و بیش ۲۶ یا ۲۷ سال تھی ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی جوانی کی عمرمیں تھے،جیسا کہ صحیح بخاری کی مختلف روایات سے ثابت ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جن کے لئےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر تفقہ فی الدین کی دعا کی،وہ بھی جوان تھے۔ ایک اور ملازم شاگرد سیدناانس رضی اللہ عنہ بھی جوان تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے آئے اس وقت ان کی عمر دس سال تھی اور دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ۔ اس حوالے سےکئی ایک صحابہ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی صرف جوانیوں کےروشن تذکرے اگر فرداً فرداً کئے جائیں تو کئی ایک دفاتر وجود میں آسکتے ہیں۔ بہرحال یہ عمر ہی اصل تعلّم کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا قول ہے:
Flag Counter