Maktaba Wahhabi

40 - 75
ایک عرصہ کے بعد بعض حضرات نے کچھ ہمت کی اور اسے [افسوس ناک غلطی]، [سبقتِ قلم] اور [کاتب کی غلطی] قرار دیا ۔[1] جبکہ در حقیقت یہ سہو و سبقتِ قلم نہیں نہ کاتب کی غلطی، اور اس کی دلیل ادلہ کاملہ ص: ۱۸ پر خود ان کا اپنا کلام ہے۔ اسی طرح اس بات پر بعض دیگر گھر کی گواہیاں بھی موجود ہیں مثلاً : مولانا عامر عثمانی ؒدیوبندی نے اپنے رسالہ تجلی میں اس تحریر پر جو تبصرہ فرمایا ہے وہ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: ’’ کتابت کی غلطی اس لیٔے نہیں کہی جاسکتی کہ حضرت شیخ الہند کا استدلال ہی اس ٹکڑے پر قائم ہے جو اضافہ شدہ ہے اور آیت کا اسی اضافہ شدہ شکل کا قرآن میں موجود ہونا وہ شدّ و مد سے بیان فرمارہے ہیں۔ اولی الامر کے واجب الاتباع ہونے کا استنباط بھی اسی سے کر رہے ہیں اور حیرت در حیرت ہے کہ جس مقصد کیلئے اصل آیت نازل ہوئی تھی ان کے اضافہ کردہ فقرے اور اس سے استدلال نے اسے بالکل الٹ دیا ہے۔‘‘[2] حکیم مولانا محمد اشرف صاحب سندھو ؒ کی تحقیقات کا خلاصہ : کتب ِ حدیث میں تحریفات اور تغیر و تبدّل کے سلسلہ میں ہی حکیم مولانا محمد اشرف صاحب سندھو ؒ نے بھی اپنی کتاب نتائج التقلیدمیں بڑی تفصیل ذکر کی ہے ، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: 1 سنن ابی داؤد جیسی مشہور و معروف اور مستند درسی کتاب جو صحاح ِستہ کا جزء شمار کی جاتی ہے ، اس میں نماز ِتراویح با جماعت کا ابتدائی واقعہ بلفظہٖ یوں مروی ہے : (( عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ جَمَعَ النَّاسَ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ
Flag Counter