Maktaba Wahhabi

45 - 105
ہو گا اور اگر وہ اپنی ناپسندیدگی کے باوجود اظہار نہ کرے، تو اس کا حق مجروح ہو گا۔ درست طریقہ یہ ہے، کہ رشتہ طے کرنے سے پیشتر بیٹی سے اجازت لی جائے ۔ اس کی طرف سے اجازت ملنے پر ہی معاملہ کو آگے بڑھایا جائے ، وگرنہ وہیں ختم کر دیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ۲: [دوشیزہ کی خاموشی] کا معنی اس کے لیے واضح کرنا: دو شیزہ کی [خاموشی سے اس کی اجازت سمجھے جانے] کے بارے میں علامہ قرطبی نے ایک خوب صورت بات تحریر کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ہمارے بعض علماء نے اس بات کو مستحب قرار دیا ہے، کہ دو شیزہ کو بتلایا جائے، کہ[ اس کی خاموشی کو اس کی اجازت سمجھا جائے گا]، تاکہ وہ صورت حال سے اچھی طرح آگاہ ہوجائے۔ ہمارے بعض شناسا فقہاء ایسے موقع پر دو شیزہ کو کہا کرتے تھے: ’’اگر تم اس پر راضی ہو، تو چپ رہو، اور اگر ناپسند ہے، تو پھر بولو۔‘‘ اور یہ یاد دہانی اچھی ہے۔[1] (۱۳) بیٹی کی مرضی کے خلاف کئے ہوئے نکاح کا مردود ہونا اگر کوئی والد یا اس کی عدم موجودگی کی صورت میں ولی بیٹی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کردے، تو وہ نکاح مردود ہوگا، خواہ بیٹی بیوہ ہو یا دو شیزہ۔ ذیل میں دونوں کے متعلق ایک ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ ا: بیوہ کی اجازت کے خلاف نکاح کا مردود ہونا: امام بخاری نے حضرت خنساء بنت خدام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے:
Flag Counter