Maktaba Wahhabi

59 - 105
اس حدیث میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اپنی بیوہ ہونے والی بیٹی کے نکاح کے لیے اہتمام واضح ہے۔ امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ عَرْضِ الْإِنْسَانِ ابْنَتَہُ أَوْ أُخْتَہُ عَلٰی أَہْلِ الْخَیْرِ] [1] [کسی انسان کے اپنی بیٹی یا بہن کو اہل خیر سے نکاح کی خاطر پیش کرنے کے متعلق باب] لیکن بسا اوقات نکاح میں ولی کی سرپرستی کی شرط سے بیٹی کو ضرر پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے، بلکہ کتنی ہی دفعہ بعض اولیاء کے نامناسب طرزِ عمل کی بنا پر بیٹی کی حق تلفی ہوتی ہے۔ بیٹی کو ضرر پہنچنے کے اندیشہ کے ازالے اور حق تلفی کے سدباب کے لیے اسلامی شریعت میں متعدد تدبیریں ہیں، جن میں سے آٹھ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ۱: ولی کے نہ ہونے کی صورت میں حاکم کا ولی ہونا: اگر کسی خاتون کا ولی سرے سے موجود ہی نہ ہو، تو اس کا حق ولایت مسلمان حاکم کو منتقل ہوجائے گا۔ امام احمد نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِيِّ، وَالسُّلْطَانُ مَوْلٰی مَنْ لَا مَوْلٰی لَہُ۔‘‘[2] ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں اور جس (خاتون) کا ولی نہ ہو، تو سلطان اس کا ولی ہے۔‘‘ علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’لَا نَعْلَمُ خِلَافًا بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِيْ أَنَّ لِلْسُّلْطَانِ وِلَایَۃَ
Flag Counter