Maktaba Wahhabi

67 - 105
کا ذکر کرتے ہوئے شیخ ابن باز لکھتے ہیں: اس بارے میں ناپسندیدہ باتوں میں سے ایک یہ ہے، کہ بہت سے بادیہ نشین اور کچھ شہری لوگ بھی چچا کی لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ سنگین برائی، طریقہ جاہلیت اور خواتین پر ظلم ہے۔ اس کی وجہ سے باہمی کدورتیں، قطع رحمی، خون ریزی وغیرہ بہت زیادہ فتنے اور سنگین بُرائیاں رونما ہوئی ہیں۔[1] بے جا حمیت پر اصرار کے وقت حاکم کی ذمہ داری: خواتین کے اولیاء کو بے جاحمیت سے روکنے کی خاطر صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہ کیا جائے گا، بلکہ اولیاء کے اصرار کی صورت میں حاکم ان کی زیرسرپرستی خواتین کا نکاح کروائے گا۔ حضرت معقل رضی اللہ عنہ والی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’وَإِنْ أَصَرَّ زَوَّجَ عَلَیْہِ الْحَاکِمُ۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أعْلَمُ۔‘‘[2] ’’اگر اس (یعنی ولی) نے (روکنے پر) اصرار کیا، تو اس کی بجائے حاکم نکاح کروادے گا واللہ تعالیٰ أعلم۔‘‘ اس بارے میں اہل اقتدار کی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے شیخ ابن باز تحریر کرتے ہیں: وَالْوَاجِبُ عَلٰی وُلَاۃِ الْأُمُوْرِ مِنَ الْأُمَرَائِ وَالْقُضَاۃِ الْأَخْذُ عَلٰی یَدِ مَنْ عُرِفَ بِالْعَضْلِ، وَالسَّمَاحُ لِغَیْرِہِ مِنَ الْأَوْلِیَائِ بِالتَّزْوِیْجِ لِمُوَلِّیَاتِہِمْ، الْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ، تَنْفِیْذًا لِلْعَدْلِ، وَحِمَایَۃً لِلشَّبَابِ وَالْفَتَیَاتِ مِنَ الْوُقُوْعِ فِیْمَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ بِأَسْبَابِ عَضْلِ أَوْلِیَائِہِمْ وَظُلْمِہِمْ۔ نَسْأَلُ اللّٰہَ
Flag Counter