Maktaba Wahhabi

70 - 105
بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْلِ}[1] [بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں، کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو وہ عدل کے ساتھ کرو۔] اور یہ واجب کردہ خیر خواہی میں سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دین خیر خواہی ہے، دین خیر خواہی ہے، دین خیر خواہی ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کے لیے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ، ان کی کتاب، ان کے رسول، مسلمانوں کے اماموں اور ان کے عوام کے لیے[2]۔‘‘[3]واللہ تعالیٰ أعلم۔ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ بیٹی کے نکاح میں ولی کی سرپرستی بیٹی کی مصلحت کے لیے ہے، اسے ضرر پہنچانے یا حق تلفی کی غرض نہیں۔ اگر اولیاء کے نامناسب طرزِ عمل یا خارجی اسباب کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہوجائے یا اس کا اندیشہ ہو، تو قرآن و سنت کی روشنی میں علماء نے اس کے ازالے کی تدبیریں پہلے سے بیان کردی ہوئی ہیں۔ (۱۴) ہدیہ میں بیٹی کا بیٹے کے برابر حصہ امام بخاری اور امام مسلم نے عامر رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے
Flag Counter