کی چیزیں مخصوص کرنا اور بیٹیوں کو اس سے محروم رکھنا ظلم اور ناجائز ہے، کیونکہ یہ بھی زمانہ ٔجاہلیت کے مذموم دستور کی ایک شکل ہے۔ تنبیہ: [مُحَرَّمٌ عَلٰی أَزْوَاجِنَا] میں (أَزْوَاجِنَا) کی تفسیر میں دو اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے، کہ اس سے مراد [خواتین] ہیں اور یہ امام مجاہد کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے، کہ اس سے مراد [بیٹیاں] ہیں اور یہ قول امام ابن زید کا ہے۔[1] دونوں میں سے ہر قول کے مطابق آیت شریفہ میں ذکر کردہ زمانہ ٔجاہلیت کے لوگ بیٹیوں کو بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں سے حاصل شدہ چیزوں سے محروم کرتے تھے، کیونکہ بیٹیاں بھی خواتین میں شامل ہیں۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ (۱۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں بیٹی کا مقام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صاحبزادیوں اور ان کے ساتھ ساتھ نواسوں اور دامادوں سے گہرا لگاؤ اور قلبی تعلق تھا۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں اس بارے میں تین ذیلی عنوانات کے تحت گفتگو کی جارہی ہے۔ ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹیوں سے معاملہ: ذیل میں اس بارے میں آٹھ باتیں ملاحظہ فرمائیے: ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ ۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے |