Maktaba Wahhabi

36 - 154
مشہور ہے )اور پھر اس طرح کے بے شمار مسائل میں اختلاف ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تکلیف میں کیو ں نہیں ڈالا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں (نعوذ باﷲ ) صحابہ رضی اللہ عنہم کا درد ختم ہوگیاتھا؟ سیدھی سی بات ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس دیو بند نامی مدرسہ یا بیٹھنے کی جگہ ہوتی تو وہاں بھی آتے ، معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف نام و مقام دیکھ کر ہی آتے ہیں یا پھر ا ن کو اجازت ہی صرف دیوبند کے نام سے ملتی ہے ۔ (ثُمَّ نعوذ باﷲ) 2۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا اردو میں کلام کرنا: فقیر کے گمان میں آتا ہے کہ مدرسہ دیوبند کی عظمت حق تعالیٰ کی درگاہ میں بہت ہے کہ صدہا عالم یہاں سے پڑھ کر گئے اور خلق ِکثیر کو ظلمات اور ضلالت سے نکالا ، یہی سبب ہے کہ ایک صالح فخرِ انبیاء علیہ السلام کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اردو میں کلام کرتے ہوئے سن کر پوچھا کہ آپ کو یہ کلام کہاں سے آگیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو عربی ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سے علمائے دیوبند سے ہمارا معاملہ ہوا ہے ہمیں یہ زبان آگئی ہے ۔ سبحان اﷲ! اس سے رتبۂ مدرسہ معلوم ہوا ۔(براہینِ قاطعہ، صفحہ ۳۰) 3۔مولاناقاسم نانوتوی اور مولانا الیاس کے دل پر نبوت کا فیضان: مولوی محمد قاسم نا نوتوی نے حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی (جو اِن کے پیر و مرشد تھے ) سے شکایت کی کہ جب بھی میں تسبیح ہاتھ میں لیتا ہوں تاکہ اﷲ کا ذکر کروں تو بہت بڑی مصیبت میرے اوپر آن پڑتی ہے اور وزن و بوجھ اپنے دل پر اتنا زیا دہ محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے اوپر کئی کئی سو من کے پتھر رکھ دیئے گئے ہوں، اور میرا دل اور زبان رک جاتے ہیں تو حاجی امداد اﷲ مکی نے کہا کہ یہ بوجھ تمہارے دل پر نبوت کا فیضان ہے اور یہی بوجھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت ِوحی اپنے اوپر محسوس فرماتے تھے ۔ ( سوانح قاسمی، جلد اول، صفحہ ۲۵۸-۲۵۹) شیخ الیاس کہتے تھے میں جب ذکر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو بہت بڑا بوجھ محسوس کرتا
Flag Counter