بلکہ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں ، کیوں کہ ہمارا مقصد تو شریعت کی تائید و نصرت ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں ، کہ لوگ خیر کی طرف راغب ہوجائیں اور شر سے دورہو جائیں ۔
۲: ان کی دوسری دلیل یہ ہے ، کہ احادیث شریفہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس جھوٹ کے بولنے سے روکا گیا ہے ، جس کا مقصد لوگوں کو گم راہ کرنا ہو ، اور ہم تو لوگوں کو راہِ حق کی طرف لانا چاہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ امام بزار کی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں ، کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا لِیُضِلَّ بِہِ النَّاسَ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔‘‘ [1]
’’جس شخص نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا، تاکہ وہ اس کے ساتھ لوگوں کو گم راہ کرے، تو اس کو چاہیے کہ [دوزخ کی] آگ سے اپنا ٹھکانا بنا لے۔‘‘
دونوں دلائل کی حقیقت:
مذکورہ بالا دونوں دلائل کی حقیقت توفیقِ الٰہی سے درج ذیل گفتگو سے واضح ہو جائے گی:
۱:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کے جھوٹ بولنے کی ممانعت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں ہر قسم کے جھوٹ بولنے کی بلا استثنا ممانعت فرمائی ہے ، اسی بارے میں حافظ ابن حجر نے تحریر کیاہے: ’’ لَا تَکْذِبُوْا عَلَيَّ‘‘ یہ ہر
|