Maktaba Wahhabi

140 - 190
اس مقام پر [الظن]سے مراد تہمت ہونے کی دلیل یہ ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا:’’ایک دوسرے کے عیوب کی ٹوہ میں نہ لگے رہو ، ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو۔‘‘ کیونکہ ہوتا یوں ہے، کہ ایک شخص کو کسی کے متعلق ابتداء میں تہمت کا خیال آتا ہے ، تو پھر وہ اس کی موجودگی کے بارے میں چھان پھٹک اور بحث و تمحیص کرتا ہے۔‘‘ [1] حافظ ابن حجر مذکورہ بالا تمام کلام نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں : یہ حدیث ارشادِ ربانی : {اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا} [2] [زیادہ[ظن] سے بچو ، یقینا بعض [ظن] گناہ ہیں اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔] کے مطابق ہے۔اس آیت کا سیاق مسلمان کی عزت کی غایت درجہ حفاظت کے حکم پر دلالت کرتا ہے ، کیونکہ پہلے [ظن] کی بنیاد پر اس کی عیب جوئی سے منع کیا گیا ہے۔ پس اگر [ظن] کرنے والا کہے:’’میں تو تحقیق کی غرض سے چھان بین کر رہا ہوں ، تو اس سے کہا جائے گا: ’’ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی نہ کرو‘‘،پس اگر وہ کہے، کہ ’’میں نے جاسوسی کے بغیر تحقیق کر لی ہے‘‘، تو اس سے کہا جائے گا:’’تم ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔‘‘ [3] ۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے اجتناب تہمت کا عہد لینا: تہمت کی سنگین برائی پر کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter