Maktaba Wahhabi

168 - 190
گے ، نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ ان کا تزکیہ فرمائیں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔] حدیث شریف کے متعلق دو باتیں : ا: مذکورہ بالا تینوں اقسام کے لوگوں کو ایک ہی حدیث میں جمع کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ طیبی نے تحریر کیا ہے: ’’ان تینوں کو ایک ہی سلسلہ میں اس لیے جمع کیا گیا ہے، کہ چادر نیچے گرانے والا متکبر ہوتا ہے ، جو کہ بزعم خود لوگوں سے بلند ہوتا ہے اور لوگوں کو کم تر اور حقیر تصور کرتا ہے ، احسان جتلانے والا یہ سمجھتے ہوئے ایسا کرتا ہے، کہ سائل پر اس کا احسان ہے اور وہ اس سے بلند ہے ، قسم اُٹھا کر سودا فروخت کرنے والا صرف اپنے ہی مفاد کا خیال رکھتے ہوئے دوسرے شخص کے حق کو ہضم کرتا ہے۔ تینوں اقسام کے لوگوں میں مشترک بات یہ ہے، کہ وہ دوسروں کی پروا نہیں کرتے ، صرف اپنی ذات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اسی بنا پر سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف توجہ اور التفات نہ فرمائیں گے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا: ’’تین [اقسام کے لوگوں ]سے اللہ تعالیٰ روزِ قیامت ہم کلام نہ ہوں گے۔‘‘ [1] ب: حدیث شریف میں ان تینوں اقسام کے لوگوں کی سزا کو ان کے بُرے اعمال سے پہلے ذکر کیا گیاہے ۔ علامہ طیبی نے اس سلسلے میں خود ہی سوال اُٹھا کر جواب دیتے ہوئے تحریر کیا ہے: تاکہ ان اعمال کی سزا کی شدت کو واضح کیا جائے۔ سننے والوں کے ذہن میں ان اعمال کے مرتکبین کے انجام کی سنگینی کا تصور پید اہو ، اور وہ اس بارے میں خود ہی سوچ و بچار کریں ۔ اسی لیے تو ابو ذر رضی اللہ عنہ کہہ اُٹھے: ’’وہ ناکام و نامراد ہو گئے ! وہ کون لوگ ہیں ؟‘‘ اور اگریوں کہا جاتا : ’’چادر لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا ، اور اپنے سودے
Flag Counter