Maktaba Wahhabi

172 - 190
مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے ، کہ اس آیت کا نزول حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی شخص کے درمیان تنازعہ کے موقع پر ہوا تھا ،[1] اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت سے اس کا شانِ نزول مختلف معلوم ہوتا ہے۔ اس اشکال کو توفیقِ الٰہی سے درج ذیل دو صورتوں میں دور کیا جا سکتا ہے: ۱: حافظ ابن حجر نے تحریر کیا ہے:’’دونوں میں کوئی تعارض نہیں ، کیوں کہ کہا جائے گا کہ آیتِ کریمہ کا نزول دونوں اسباب کی بنا پر تھا۔ اور آیت کریمہ کے الفاظ میں عموم ہے۔‘‘ [2] ب: نزول آیت سے مراد یہ ہے، کہ یہ آیت دونوں واقعات پر چسپاں ہوتی ہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :’’ان [حضرات صحابہ] کا یہ کہناکہ:’’اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔‘‘ بسا اوقات اس سے مراد سبب نزول ہوتا ہے ، اور بسا اوقات مقصود یہ ہوتا ہے، کہ یہ بھی اس آیت میں داخل ہے۔[3] اگرچہ وہ سبب[نزول] نہ بھی ہو ، جیسے کہ آپ کہتے ہیں :’’اس آیت سے مقصود یہ ہے۔‘‘ [4] ج: مخصوص قیمت پر سودا فروخت نہ کرنے کی جھوٹی قسم: فروختگی کے موقع پر جھوٹی قسم کی ایک شکل یہ ہے ، کہ بیچنے والا قسم کھائے ، کہ میں اپنا مال اس قیمت پر ہر گز فروخت نہیں کروں گا، پھر جب گاہک کو منہ موڑتے دیکھے ، تو اسی نرخ پر سودا بیچ دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی جھوٹی قسم کے بُرے انجام کو بیان کرتے ہوئے اس سے دُور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ امام ابن حبان نے حضرت ابو سعید
Flag Counter