Maktaba Wahhabi

186 - 190
اپنے فضل و کرم سے اس سے محفوظ فرمائیں ۔ آمین یا ذا الجلال والإکرام۔ علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے [ویل]کا مستحق ہونے کا ذکر ایک مرتبہ نہیں ، بلکہ تین مرتبہ فرمایا۔ علامہ مناوی نے اس تکرار کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی شدید بربادی کی خبر دینے کی خاطر اس [یعنی لفظ ویل] کا تکرار فرمایا، کیونکہ جھوٹ تنہا ہی ہر قابل مذمت برائی کی جڑ، اور ہر خرابی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ہنسانا شامل ہوگیا، جو دلوں کو مردہ کرتا ہے، نسیان کو کھینچتا ہے اور سرکشی کو لاتا ہے، تو پھر تو یہ انتہائی قبیح صورت اختیار کرجاتا ہے۔ ‘‘[1] کس قدر نادان ہے وہ شخص جو دوسروں کو ہنسانے کی غرض سے اپنی عاقبت برباد کرتا ہے! اے اللہ کریم! ہمیں ایسے احمق لوگوں میں شامل نہ فرمانا۔ آمین یا حي یا قیوم۔ (۱۲) ازارہ تکلف جھوٹ بولنا بعض لوگ ازراہ تکلف جھوٹ بولتے ہیں ۔ انہیں کوئی چیز پیش کی جائے، تو وہ اس کی شدید رغبت اور خواہش کے باوجود کہتے ہیں : ’’مجھے اس کی خواہش نہیں ۔ ‘‘ علامہ غزالی نے تحریر کیا ہے: جھوٹ کی ایک عام رائج صورت، جس کے بارے میں تساہل کیا جاتا ہے، یہ ہے، کہ [کسی سے] کہا جائے: ’’ کھانا تناول فرمائیے ‘‘ اور وہ جواب میں کہے: ’’ مجھے طلب نہیں ‘‘ [حالانکہ اس کو اس کی طلب ہوتی ہے] ایسا کرنے سے روکا گیا ہے اور یہ حرام ہے، اگرچہ وہ دلی ارادے سے نہ بھی کہے۔ [2]
Flag Counter