Maktaba Wahhabi

196 - 190
۲: ان حالات میں جھوٹ کا استعمال بوقت مجبوری: اس بارے میں علامہ غزالی نے لکھا ہے: جب جنگ اور باہمی اصلاح میں بات جھوٹ کے بغیر نہ بنے، تب جھوٹ جائز ہے، لیکن جہاں تک ممکن ہو،[ان حالات میں بھی] جھوٹ سے بچنا چاہیے، کیونکہ جب کوئی شخص جھوٹ کا دروازہ اپنے لیے کھول لیتا ہے، تو اس بات کا خدشہ ہوتا ہے، کہ پھر حاجت اور ضرورت کے بغیر بھی وہ جھوٹ کی طرف آئے گا۔ [1] علامہ قرطبی تحریر کرتے ہیں : ’’ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ ہر قسم کا جھوٹ حرام ہے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ جھوٹ کی کوئی شکل جائز نہیں ۔ اور ان صورتوں میں [بھی] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالح کے حاصل ہونے اور مفاسد کے دور ہونے کی بنا پر جھوٹ کی اجازت دی ہے۔ اور بہترین بات یہ ہے ، کہ وہ ان تین صورتوں میں بھی جہاں تک ممکن ہو، جھوٹ نہ بولے۔ اور جب ممکن نہ ہو، تو پھر رخصت پر عمل کرے۔ ‘‘[2] ۳:کیا جھوٹ سے مراد تعریض اور توریہ ہے؟ قاضی عیاض نے مذکورہ بالا تین حالتوں میں جھوٹ بولنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا ہے، کہ اس جھوٹ کی نوعیت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے: ایک گروہ کی رائے میں ایسے حالات میں جھوٹ کی مطلقاً اجازت ہے۔ انہوں نے مصلحت کی بنا پر خلافِ واقعہ بات کہنے کی رخصت دی ہے۔ اس بارے میں انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے قول:
Flag Counter