Maktaba Wahhabi

142 - 322
رکھتے ہو، تو تمھیں ان پر اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں ترس نہ آئے۔] آیت شریفہ کے حوالے سے چودہ باتیں: ۱: [اَلزَّانِیَۃُ] اور [الزَّانِی] کے لام تعریف کی نوعیت: [اَلزَّانِیَۃُ] اور [الزَّانِی] پر داخل ہونے والا [ال] جنس کے لیے ہے اور یہ غالباً استغراق کا فائدہ دیتا ہے اور قیامِ تشریع کا تقاضا بھی یہی ہے، کہ حکم سب کے لیے یکساں ہو۔[1] مراد یہ ہے، کہ [اَلزَّانِیَۃُ] سے مقصود ہر زنا کرنے والی عورت اور [الزاني] سے مقصود ہر زنا کرنے والا مرد ہے، خواہ وہ مال دار ہو یا مفلس، حاکم ہو یا محکوم، لوگوں کی نظر میں اعلیٰ خاندان سے ہو یا کسی دوسرے خاندان سے، ان سب حیثیتوں سے قطع نظر، زنا کرنے والوں کا حکم وہی ہے، جو اس مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ اس حکم سے صرف وہ لوگ مستثنیٰ ہیں، جن کے لیے کتاب و سنت میں الگ حکم بیان کردیا ہے، جیسے شادی شدہ شخص [2] اور غلام لونڈی وغیرہ۔[3] ۲: [الزَّانِیَۃُ] اور [الزَّاني] سے مقصود: اس مقام پر …جیسا کہ مفسرین علیہما السلام نے بیان کیا ہے… مراد آزاد، بالغ، غیر شادی شدہ عورت اور مرد ہیں۔[4] ۳: [الزانیۃ] کا ذکر کرنے کی حکمت: قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں کے مشترکہ احکام کا ذکر کرتے ہوئے بالعموم صرف [مذکر کا صیغہ] استعمال کیا گیا ہے۔ زنا کرنے والوں کو سزا دینے کا
Flag Counter