Maktaba Wahhabi

66 - 98
والوں کے لیے کتنا کچھ چھوڑا ہے! تاریخ بغداد میں احمد بن عبدالجلیل کے سوانح کے تحت ان کے ایک قصیدہ کا ذکر ہے جس کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں: لا یکونُ السَّرِيُّ مِثْلَ الدَّنِيِّ وَلا ذُو الذَّکَائِ مِثْلَ الْغَبِيِّ قِیْمَۃُ الْمَرْئِ کُلَّمَا أَحْسَنَ الْمَرْ ئُ قضاء من الإمام عليّ ’’شریف کمینے کی طرح نہیں ہوتا اور نہ ذہین و فطین کند ذہن کی طرح۔ آدمی کی قدر و قیمت تو اس وقت ہوتی ہے جب وہ کوئی اچھا کام کرے، یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے۔‘‘ 26. طلبِ علم کے لیے سفر کرنا: جو شخص تلاشِ علم کے لیے رختِ سفر نہیں باندھتا تو حصولِ علم کے لیے کوئی بھی سفر کر کے اس کی طرف نہیں آتا۔[1] جو طلب و علم کے لیے شیوخِ علم کی طرف سفر و سیاحت اختیار نہیں کرتا تو یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اُس میں یہ اہلیت پیدا ہو کہ کوئی حصولِ علم کے لیے اس کی طرف سفر کر کے آئے۔ یہ علما جنھوں نے تعلّم و تعلیم اور اخذِ علم میں وقت گزارا ہوتا ہے، ان کے پاس کچھ تحریریں، حافظے میں محفوظ کچھ علمی خزانے، کچھ علمی نکتے اور تجربات ہوتے ہیں، بہت مشکل ہے کہ صرف کتابوں سے ان تمام نکات وغیرہ سے واقفیت بہم پہنچائی جا سکے۔ اس طریقِ حصولِ علم سے الگ تھلگ رہنے سے بچیے، جیسا کہ وہ باطل پرست صوفی کرتے ہیں جو خرقہ پوشی (تصوف) کے علم کو کاغذ پر لکھے ہوئے علم پر ترجیح دیتے ہیں۔ کسی صوفی سے کہا گیا کہ آپ عبدالرزاق سے حدیث وغیرہ سننے کے لیے رختِ سفر باندھنے کو تیار ہیں؟ اس نے کہا: جس کو براہِ راست
Flag Counter