Maktaba Wahhabi

68 - 103
ہیں ۔ کیا یہ نظریہ فرمانِ رسالت اور مقامِ نبوت سے کھلی بغاوت اور سرکشی و سرتابی نہیں ؟ ایسے ہی نجومیوں کی بعض درست نکلنے والی باتوں کی حیثیّت بھی وہی ہے جو کاہنوں کی ہے۔ وہ بھی ایک بات درست کہیں تو سَو جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی درست بات کا مطلب بھی ہر گز یہ نہیں ہو تا کہ وہ بر بنائے علم درست کہتے ہیں بلکہ ان کی کوئی بات اتفاقاً درست ہو جا تی ہے جس میں ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہو تا۔ پس جو شخص ان لوگوں کوسچا سمجھتا ہے وہ کڑی آزمائش اور فتنہ میں مبتلا ہوجا تا ہے۔[1] اور بقول کسے ؎؎؎ ؎ اگردنیا میں رہنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر لباسِ خضر میں یہاں رہزن شیطان پھرتے ہیں علمِ نجوم و کہانت و رَمل ؛ شریعت کی نظر میں : بعض لوگ روشن خیالی اور وُسعتِ معلومات کا بھرم قائم کرنے کے لیٔے بیٹھے بٹھائے کھٹاک سے فتویٰ داغ دیتے ہیں کہ علم سیکھنا جائز ہے چاہے کوئی بھی ہو حالانکہ یہ نظریہ ایسے لوگوں کا ہی ہوسکتا ہے جو غلط اور درست کے کِسی شرعی معیار کو تسلیم نہ کرتے ہوں ورنہ اس مطلق فتوے کو اس شرعی شرط کے ساتھ مقیّد کرنا ہوگا کہ ہر علم سیکھنا جائز ہے اگر اُس میں شریعت کی مخالفت نہ پائی جاتی ہو جبکہ بعض علوم ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں قرآن و سنّت کی واضح نصوص شاہد ہیں کہ ان کا سیکھنا ناجائز وحرام ہے اور کئی ایسے علوم بھی ہیں کہ جن کاسیکھنا آدمی کو کفر کی وادیوں میں پہنچا دیتا ہے اور وہ شخص سزائے موت کا مجرم قرار پاتا ہے جیسا کہ عِلم سِحر یعنی جادُو کے بارے میں ہم عرض کر چکے ہیں ۔اور اس سے ملتا جلتا اور قدرے کمتر درجے کا علم ،علمِ نجوم ہے۔ جبکہ برِّ صغیر کے ممالک میں یہ علمِ نجوم بھی کافی عروج پر ہے بلکہ نجومیوں اور جوتشیوں نے
Flag Counter