Maktaba Wahhabi

111 - 131
اس دلیل کا رد : بلاشبہ صحابی کی تفسیر حجت ہے لیکن جب صحابی کی تفسیر دوسرے صحابی سے متعارض ہوتو پھر دونوں تفسیروں کو سامنے رکھ کر بقیہ دلائل ملا کر مقارنہ کیا جائے گا اور نتیجہ اخذ کیا جائے گا۔ ۱: یہ مذکورہ تفسیر جو سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے طریق سے پہنچی ہے گویا سعید بن جبیر جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے ان کا موقف بھی یہی تھا تو انہی سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ((ظَاھِرُ الزِّیْنَۃِ ھُوَ الثِّیَابُ)) [1] ’’ظاہر زینت سے مراد کپڑے ہیں۔‘‘ تو ایک طرف تو ہاتھ چہرے اور انگوٹھی کو نقل کیا دوسری طرف اس سے مراد صرف کپڑے ذکر کیا جو کہ قرین قیاس ہے کیونکہ قرآن کریم میں {اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا} ہے کہ مگر جو از خود ظاہر ہو اور چہرہ اور ہاتھ و انگوٹھی از خود ظاہر نہیں ہو سکتے بلکہ کپڑے اور برقعہ وغیرہ ا زخود ظاہر ہو سکتا ہے کہ ان کو چھپایا نہیں جا سکتا کیونکہ انہیں کپڑوں اور برقعہ یا چادر سے ہی تو زینت چھپائی تو اس کو چھپانے کے لیے ایک اور چادر لے گی تو پھر وہ چادر ظاہر ہو گی معلوم ہوا کہ جو خود ظاہر ہوتا ہے وہ کپڑے ہی ہیں ہاتھ‘ چہرہ اور انگوٹھی نہیں۔ قرآن کریم نے باب لازم کو استعمال کیا ہے یہ نہیں کہا کہ اِلَّا مَا اَظْہَرْنَ مِنہَا کہ جو عورتیں اس زینت سے ظاہر کریں تو پھر چہرہ اور ہاتھ و انگوٹھی اس قبیل سے ہو سکتی تھیں لیکن چونکہ قرآن کریم نے اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا کہا اِلَّا مَا اَظْہَرْنَ مِنْہَا نہیں کہا تو معنی یہی ہو گا کہ جو از خود ظاہر ہو وہ کپڑے ہی ہو سکتے ہیں‘ چہرہ و ہاتھ و انگوٹھی نہیں ہو سکتے۔ ۲: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے چونکہ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا کی تفسیر چہرہ و ہاتھ و انگوٹھی سے کی ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی علی بن ابی طلحہ کے طریق سے (جس طریق کے صحیح ہونے
Flag Counter