Maktaba Wahhabi

117 - 131
کا اپنا عمل اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا عمل اس حدیث کی نفی کرتا ہے۔ ٭ اس روایت میں ولید بن مسلم القرشی ہے جس کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ((کثیر التدلیس والتسویۃ۔)) [1] ’’یہ شخص تدلیس تسویہ کرتا تھا جو کہ روایت کے ضعیف ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘ ۲: دوسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ منبر پر تھے تو فرمایا کہ عورتوں کو زیادہ مہر نہ دیا کرو خواہ وہ یزید بن حصین حارثی کی بیٹی ہو جو زیادہ دے گا وہ بیت المال میں لوٹایا جائے گا ۔ ((فقالت امرأۃ من صنفۃ النساء طویلۃ فی انفھا فطس۔)) تو ایک لمبی عورت جس کا ناک چپٹا تھا اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں {وَآتَیْتُمْ اِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا} ’’خواہ تم خزانہ بھی دے دو (اور تم ۴۰۰ درہم سے زیادہ پر پابندی لگا رہے ہو)‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عورت نے حق بات کہی اور رجل اخطأ ’’مرد غلطی کر گیا ہے‘‘[2] تو کہتے ہیں اگر اس کا چہرہ ننگا نہ ہوتا تو کیسے پتہ چلتا کہ اس کا ناک چپٹا ہے یا نہیں اس لیے چہرہ کا پردہ کرنا ضروری نہیں۔ استدلال کا رد : پہلی بات یہ ہے اس روایت کو جب ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے تو نقل کرنے سے قبل یہ الفاظ لکھے ہیں : ((طریق آخر عن عمر فیھا انقطاع۔)) ’’اسی روایت کا ایک اور طریق جس میں انقطاع ہے (یعنی وہ صحیح نہیں منقطع ہے)‘‘ پھر روایت یہ نقل کی ہے تو مسئلہ یہاں ہی حل ہو گیا۔ پھر فتح القدیر میں اس روایت کو ذکر کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے مختلف طرق ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے اور محقق دکتور عبدالرحمن عمیرہ لکھتے ہیں کہ سعید بن منصور نے اس کو ۵۹۸ نمبر کے تحت نقل کیا ہے اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد کی جلد ۴
Flag Counter