Maktaba Wahhabi

217 - 670
عورتوں کا قبر ستان کی زیارت کرنے کا حکم عورت قبر پر جا کر روئے تو صاحب قبر کی زیارت نہیں ہوتی ہے اور اگر نہ روئے تو زیارت ہوتی ہے یہ کہاں تک درست ہے؟ سوال:کیامیں اپنے بیٹے کی قبر کی زیارت کر سکتی ہوں؟ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب والدہ طلوع آفتاب سے پہلے قبر پر جائے اور وہاں پر نہ روئے اور سورۃالفاتحہ پڑھے تو اس کے بیٹے کے لیے اس کو دیکھنا ممکن ہو گا اور ان کے درمیان چھلنی کے سوراخوں کے برابر فاصلہ ہو گا اور اگر وہ روئے تو وہ اپنے بچے کی زیارت سے روک دی جائے گی، یہ کہاں تک درست ہے؟نیز یہ بتائیے کہ عورتوں کے قبرستان جانے کا کیا حکم ہے؟ جواب:یہ جو عورت کا عمل ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ جمعہ کے دن طلوع آفتاب سے پہلے اپنے بیٹے کی قبر پر حاضر ہو کر سورۃ الفاتحہ پڑھے اور روئے نہیں تو اس کے لیے اس کے بیٹے سے پردہ دور کر دیا جائے گا اور وہ اپنے بیٹے کو یوں دیکھے گی جیسے وہ چھلنی کے سوراخوں کے درمیان سے اس کو دیکھ رہی ہے، بلاشبہ یہ ایک باطل قول ہے، بالکل صحیح اور درست نہیں ہے، اس قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ رہا عورتوں کا قبر ستان جانا تو اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض تو اس کو مکروہ کہتے ہیں اور بعض نے اس کو جائز قراردیا ہے جبکہ اس کے قبرستان جانے میں کوئی ممنوع کام شامل نہ ہو۔ اور بعض علماء نے اس کو حرام قراردیا ہے ۔میر ے نزدیک صحیح اور علماء کے مختلف اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ یقیناً عورتوں کا قبرستان جانا حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں اور ان پر مساجد بنانے اور چراغ جلانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے اور کسی مباح فعل پر لعنت نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی مکروہ فعل پر لعنت ہوتی ہے بلکہ فعل حرام پر لعنت ہوتی ہے ،بلکہ اہل علم کے ہاں جو قاعدہ مشہور ہے وہ
Flag Counter