Maktaba Wahhabi

481 - 670
طلاق نہیں ہوتی ہے۔کیونکہ طلاق خاوند یا اس کے وکیل کے طلاق بولنے سے واقع ہوتی ہے،اور سائل کے سوال کے مطابق نہ اس نے طلاق کالفظ بولا اور نہ ہی اس شخص نے بولا جس کو وہ طلاق کا وکیل بنانا چاہتا تھا۔ اس بنا پر بیوی اس کی زوجیت میں باقی ہے اور اس کو مصر آنے کے بعد طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ طلاق کا سبب غلط فہمی اور غصہ تھا اور اب وہ جاتا رہاہے،لہذا اب اس کو طلاق دینے کی ضرورت نہیں،وہ بدستور اس کی زوجیت میں ہے۔اسی طرح ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ تو کرے مگر نہ طلاق کا لفظ بولے اور نہ لکھے تو بیوی مطلقہ نہیں ہوگی۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ ) جب خاوند نے طلاق نامہ تحریر کیا مگر منہ سے بول کر طلاق نہ دی: سوال:اگر خاوند نے ایک کاغذ پر اپنی بیوی کے لیے لکھا:"تجھے طلاق۔"کیا طلاق واقع ہوجائےگی جب کہ اس نے اپنے منہ سے طلاق کا لفظ نہیں بولا؟ جواب:اس کی نیت کا جانناضروری ہے ۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کایہ موقف ہے کہ طلاق نامہ تحریر کرنے سے طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ اس نے نیت نہ کی ہو، جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں چیزوں کاجمع ہونا ضروری ہے ،یعنی اگر اس نے طلاق کی نیت کی مگر لکھا نہیں تو طلاق واقع نہیں ہوگی،اور اگر اس نے طلاق لکھی مگر نیت نہ کی تو بھی واقع نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے طلاق بھی لکھی اور اس کے ساتھ نیت کو بھی شامل کیا تو طلاق واقع ہوجائے گی،لہذا طلاق میں نیت کا ہوناضروری ہے۔ (محمد بن عبدالمقصود) طلاق کو واجب کرنے والے اسباب جب بیوی نے خاوند کے نامرد ہونے کادعویٰ کیا: سوال:جب بیوی نے دعویٰ کیا کہ اس کا خاوند نامرد ہے،مرد کو معائنے کے لیے بلایاگیا تو وہ بھاگ نکلا؟
Flag Counter