Maktaba Wahhabi

102 - 611
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر ہم کوئی عمل کریں؟ کیا ہم اسی پر بھروسا نہ کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! عمل کرتے جاؤ، ہر آدمی کے لیے وہی آسان کر دیا جاتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ اللیل (آیت: ۴ تا ۱۰) کی تلاوت فرمائی: {اِِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی . فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی . وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی . فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی . وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی . وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی . فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی} ’’جس نے اللہ کے راستے میں مال دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات (ملتِ اسلام) کو سچا سمجھا تو ہم اس کو راحت کی چیز کے لیے سامان دیں گے، اور جس نے بخل کیا اور اللہ سے بے نیازی برتی اور اچھی بات (اسلام) کو جھٹلایا، تو ہم اس کو تکلیف کی چیزکے لیے سامان دیں گے۔‘‘[1] تقدیر پر ایمان لا نے کا دوسرا درجہ: اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ نے قضا و قدر کے ہر فیصلے کو ایک کتاب میں قلم بند کر رکھا ہے، جیسا کہ سورت یٰس (آیت: ۱۲) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ} ’’اور ہر چیز کو ہم نے کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں لکھ رکھا ہے۔‘‘ سورۃ الحج (آیت: ۷۰) میں ارشادِ الٰہی ہے: { اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ } ’’یہ (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔‘‘ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: { فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی . قَالَ عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَی} [طٰہٰ: ۵۱، ۵۲]
Flag Counter