Maktaba Wahhabi

106 - 611
3. تیسری تقدیر: تیسری تقدیر، اسے بھی ’’تقدیرِ عمری‘‘ کہہ سکتے ہیں، جب کہ رحمِ مادر میں نطفے کی تخلیق ہوتی ہے، تخلیقِ نطفہ کے وقت جو ’’تقدیرِ عمری‘‘ لکھی جاتی ہے، اس کی دلیل سورۃ النجم (آیت: ۳۲) میں اس طرح بیان فرمائی گئی ہے: { ھُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ فَلاَ تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی} [النجم: ۳۲] ’’اللہ تمھیں بہتر جانتا ہے جب تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں ’’جنین‘‘ تھے، اس لیے خود کو پاکیزہ نہ سمجھو، وہ جانتا ہے کون متقی ہے؟‘‘ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی ماں کے رحم میں چالیس دن نطفے کی شکل میں رہتے ہو، پھر وہ نطفہ دوسرے چالیس دن میں جما ہوا خون بن جاتا ہے، پھر چالیس دن میں گوشت کا لو تھڑا بنتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے، وہ آکر اس میں روح پھو نکتا ہے اور اسے حکم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق یہ چار امور لکھ دے: 1.رزق۔ 2.موت وحیات۔ 3.عمل۔ 4. بد بخت یا سعادت مند۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں! ایک شخص جنتیوں جیسا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے مابین صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے، اس پر نوشتہ (تقدیر) سبقت کر جاتا ہے اور وہ جہنم والا عمل کر بیٹھتا ہے اور جہنمی بن جاتا ہے۔ ایک شخص جہنمیوں والا عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے مابین صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر نوشتہ (تقدیر) سبقت کر جاتا ہے اور وہ جنت والا عمل کر گزرتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔‘‘[1] اس سلسلے میں صحابہ کرام علیہم السلام کی ایک جماعت سے مختلف الفاظ کے ساتھ روایات آئی ہیں اور سب کا معنی ایک ہی ہے۔
Flag Counter