Maktaba Wahhabi

111 - 611
مسئلہ تقدیر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے: تقدیر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے، جسے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، جیسے اللہ تعالیٰ کا کسی کو گمراہ کرنا، کسی کو ہدایت دینا، کسی کو مارنا، کسی کو زندہ کرنا، کسی کو محروم کرنا اور کسی کو نوازنا وغیرہ ہے۔ ان تمام امور اور ان کی حکمتوں سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( إِذََا ذُکِرَ الْقَدْرُ فَأَمْسِکُوْا )) [1] ’’جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو (بحث کرنے سے) رُک جا۔‘‘ دنیوی اسباب کا استعمال: دنیوی اسباب کو اختیار کرنا تقدیر اور توکّل کے منافی نہیں، بلکہ یہ اسی کا ایک جزو ہے۔اگر کسی انسان پر کوئی مصیبت یا آزمایش آجائے تو اسے کہنا چاہیے: (( قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَآئَ فَعَلَ )) ’’اللہ تعالیٰ ہی نے تقدیر بنائی ہے اور وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ، فرشتوں، رسولوں، آسمانی کتابوں، یومِ آخرت اور تقدیر پر ایمان لانے سے انسان حقیقی اور کا مل مومن بنتا ہے اور ان میں سے کسی بھی ایک چیز کو تسلیم نہ کرنے سے انسان دائرہ ایمان و اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ نیک اعمال اور ایمان آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں میں سے ایک نہ ہو تو دوسرے کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’ایمان کے ستّر سے زائد درجے ہیں اور سب سے اعلیٰ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے اور سب سے ادنا، راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا اور شرم و حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔‘‘[2] ایمان باللہ کے سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ایمان قول اور عمل کے مجموعے کا نام ہے جو اطاعت و فرمانبرداری سے بڑھتا اور گناہ و معصیت سے گھٹتا ہے۔ کفر و شرک کے علاوہ کسی
Flag Counter