Maktaba Wahhabi

144 - 611
2. فقر وحاجت کے اظہار کا وسیلہ: جیسا کہ سورۃ الانبیاء (آیت: ۸۳) میں حضرت ایوب علیہ السلام نے کہا: { وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ} ’’ایوب کی اس حالت کو یاد کرو جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے بیماری پہنچی ہے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ مہربان ہیں۔‘‘ 3. نیک اعمال کا وسیلہ: اس ’’وسیلے‘‘ سے مراد وہ ا عمالِ صالحہ ہیں جن کے ذریعے اللہ کی رضامندی اور اس کا قرب حاصل ہو تا ہے، اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد، ابو وائل، حسن، عبد اللہ بن کثیر، امام سعدی، ابن زید اور دیگر ائمہ تفسیر رحمہم اللہ نے وسیلے کے معنیٰ ہی قربت کے کیے ہیں، یعنی اللہ کی اطاعت اور اس کے پسندیدہ عملوں کے ذریعے سے اس کا قرب حاصل کرنا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان ائمہ نے جو کچھ کہا ہے، اس کی بابت مفسرین کے مابین کوئی اختلاف نہیں، وسیلہ ایسی ہی چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مقصود تک پہنچا جاسکے۔‘‘[1] ظاہر بات ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کاواحد ذریعہ اعمالِ صالحہ ہیں، اس لیے اعمالِ صالحہ ہی اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے ُان تین اشخاص کے قصے میں آیا ہے کہ غار کے منہ پر پتھر آپڑا اور انھوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مصیبت دور کردی۔[2] یہی وسیلہ ہے جس کا ذکر ان دونوں آیا ت میں ہے، جن سے شبہہ پیش کرنے والوں نے دلیل لی ہے، حالانکہ یہ وسیلہ نیک اعمال کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ 4 زندہ نیک لوگوں کی دعا کا وسیلہ: اسی طرح ایک جائز وسیلہ یہ بھی ہے کہ کسی زندہ نیک شخص جو صحیح عقیدے والا ہو، اس سے دعا کروائی جائے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں قحط سالی دور کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter