Maktaba Wahhabi

145 - 611
کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا، یعنی ان سے بارش کی دعا کروائی اور یہ فرمایا: ’’اے اللہ! پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرواتے تھے (جبکہ وہ زندہ تھے) تو تُو ہم پر اپنی رحمت کی بارش نازل فرمادیتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو تیری بارگا ہ میں بطورِ وسیلہ (دعا کے لیے) پیش کر رہے ہیں، پس اے اللہ! (ان کی دعا قبول فرما کر) ہم پر بارش نازل فرما۔ (راوی کہتا ہے) کہ اس پر بارش ہو جاتی۔‘‘[1] اگر فوت شدہ بزرگوں سے وسیلے کے طور پر دعا کروانی جائز ہوتی تو صحابہ کرام علیہم السلام قحط سالی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک پر جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی در خواست ضرور کرتے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، کیو نکہ وہ جانتے تھے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم نہیں ہے کہ کسی کی وفات کے بعد اس کی قبر پر جاکر اس کی ذات کے وسیلے سے اللہ کو پکارا جائے، بلکہ ان لوگوں نے زندہ بزرگ شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمِ محترم کو وسیلہ بنایا، یعنی ان سے دعا کروائی اور یہ وسیلہ جائز ہے۔ میری مسلمان بہنو اور بھائیو! وسیلے کی جائز اور درست اقسام میں نے آپ کے سامنے بیان کردی ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر عمل کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین آٹھواں شبہہ: ان لوگوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ بعض قبروں کے پاس ان کی بعض حاجتیں پوری ہوگئیں، جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے فلاں قبر پر حاضر ہو کر دعا کی، یا فلاں شخص یا ولی کا نام پکارا تو اس کی مراد پوری ہوگئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مشرک کی کسی حاجت کا پورا ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ جس شرک کا ارتکاب کر رہا ہے وہ جائز اور درست ہے، بلکہ اس مقام پر اس کی حاجت کا پورا ہونا تقد یرِ الٰہی سے تھا اور مشرک یہ سمجھ رہا ہو تا ہے کہ یہ کسی شیخ یا ولی سے اس کے فریاد کرنے کی وجہ سے ہوا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کسی مراد کے یوں پورا ہونے میں اس کے لیے آزمایش ہو۔ خلاصہ یہ کہ کسی وقت کسی مشرک کی حاجت پورا ہونے سے اس بات کی دلیل نہیں لی جاسکتی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے دعا کرنا درست ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے:
Flag Counter