Maktaba Wahhabi

214 - 611
جبکہ حرفِ ’’واو‘‘ مطلق جمع و اشتراک کے لیے آتا ہے، جس سے ترتیب و تعقیب کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا، جیسے کسی سے کہا جائے کہ میرے لیے تو بس اللہ اور تم ہو، یا یہ کہا جائے کہ ایسا صرف اللہ اور تمھاری برکت کے طفیل ہے۔ یہ شرکیہ کلمات ہیں۔ شرکیہ افعال اعمال کی مثال جیسے کڑے پہننا، مصائب کے ازالے کے لیے دھاگا باندھنا، نظرِ بد سے بچنے کے لیے تعویذ پہننا، ان اعمال کے ساتھ جب کسی کا یہ عقیدہ بھی ہو کہ انھیں پہننے سے مصیبتیں دور ہوجاتی ہیں، بلائیں ٹلتی ہیں تو یہ شرکِ اصغر ہے اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ یہ چیزیں بذاتِ خود دفعِ مصائب کا ذریعہ ہیں، تو یہ شرکِ اکبر ہے، کیونکہ اس میں غیر اللہ کے ساتھ اس تعلق و ربط کا اظہا ر ہورہا ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ ٭ شرکِ اصغر خفی: یہ ارادوں اور نیتوں کا شرک ہوتا ہے، جیسے ریا کاری یا حصولِ شہرت کے لیے ایسے اعمال کیے جائیں جن سے بظاہر اللہ کی بندگی مقصود ہو مگر باطن میں اس سے ریا کاری یا شہرت و شاباشی اور لوگوں کی تعریف کا حصول مقصود ہو۔ ریا کاری سے بندے کے سارے اعمال تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اخلاصِ عمل کی تعلیم دی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا} [الکھف: ۱۱۰] ’’تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘ مسند احمد اور طبرانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَ مَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: الرِّیَائُ )) [1] ’’مجھے تمھارے متعلق جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے، وہ شرکِ اصغر ہے۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریا کاری
Flag Counter