Maktaba Wahhabi

229 - 611
{ اِِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ . وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ. لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ} ’’ ہم نے اس (قرآنِ کریم) کو شبِ قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘ قرآنِ کریم کی فضیلت میں اگر صرف یہی ایک آیت نازل کی گئی ہوتی تب بھی قرآن مجید کی عظمت اور فضیلت کے لیے کافی تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کے فضائل و برکات کے بارے میں جو احادیثِ مبارکہ ارشاد فرمائی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرد اگر ساری زندگی اللہ کے حضور سجدے میں گزار دے، تب بھی حقِ شکر ادا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام: قرآنِ کریم کی فضیلت اور شرف و منزلت کے لیے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی کافی ہے کہ یہ یقینا علیم و حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ اُسی کی طرف لوٹے گا۔ یہ قرآنِ کریم بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی نے نازل فرمایا ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام نے اسے اللہ تعالیٰ سے حاصل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو من و عن ٹھیک اسی طرح پہنچا دیا، جس طرح انھوں نے اسے ربِ ذو الجلال سے حاصل کیا تھا، قرآنِ کریم بلاشبہہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے اور یہ کلام اس ذاتِ عالی کا کلام ہے جس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ یہی وہ کلامِ پاک ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان سے مخاطب ہے اور بندہ مومن جب اللہ کا کلام قرآنِ کریم سنتاہے تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور اس کا دل جیسے ابھی پرواز کرجائے گا، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، کیونکہ قرآنِ کریم کی اثر انگیزی ہی بڑی زبردست ہے۔ اگر اس کلامِ الٰہی کو پہاڑ پر نازل کر دیا جاتا تو وہ بھی لرز جاتے اور اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوکر بکھرجاتے،[1] جیسا کہ سورۃ الحشر (آیت: ۲۱) میں فرمانِ الٰہی ہے: { لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ}
Flag Counter