Maktaba Wahhabi

230 - 611
’’ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ کر پاش پاش ہو جاتا ہے، اور یہ باتیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں۔‘‘ پہاڑوں کی قوت و طاقت کے مقابلے میں انسانی دل کی کیا حیثیت ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اُسے اٹھانے کی قوت عطا کی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل اور رحمت سے سرفراز فرماتا ہے۔[1] ربِ ذو الجلال نے ہمیں قرآنِ کریم کی جو عظیم دولت عطا کی ہے اور جس فضل و رحمت کا ہم پر فیضان کیا ہے، اسی پر ہماری ساری راحت و مسرت موقوف ہے اور ہمیں اسی متاعِ بے بہا پر خوشی محسوس کرنی چاہیے۔ ہدایت، رحمت اور بشارت: اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے بارے میں سورۃ النحل (آیت: ۸۹) میں فرمایا ہے: {وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ } [النحل: ۸۹] ’’اور ہم نے تم پر (ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ (اس میں) ہر چیز کا بیان (مفصل) ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہدایت، رحمت اور بشارت کی زبردست اہمیت کی وجہ سے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے: 1. اَلْھُدَیٰ: وہ ہدایت جس کے واضح بیان سے عقائد اور فہم کی اصلاح کی جائے اور گمراہی سے بچ کر قدم راہِ نجات کی طرف بڑھنے لگیں۔ 2. اَلرَّحْمَۃُ: وہ رحمت جس کی بدولت دُنیا و آخرت دونوں زندگیوں کی خوش بختی حاصل کی جائے۔ 3. بُشْرَیٰ: وہ بشارت جس میں دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور مسرتوں کا وعدہ ہوا ہو۔ یہ تمام نعمتیں غیر مسلموں کے لیے نہیں، صرف مسلمانوں کے لیے ہیں، کیونکہ جب کافروں نے قرآنِ کریم سے منہ موڑلیا تو انھوں نے اپنے آپ کو ان تمام نعمتوں سے از خود محروم کر لیا۔
Flag Counter