Maktaba Wahhabi

254 - 611
حضرت عباد رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’آپ رات کے پہلے حصے میں سونا پسند کریں گے یا پچھلے حصے میں؟‘‘ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں پہلی رات آرام کروں گا اور پچھلی رات پہرہ دوں گا۔‘‘ حضرت عباد رضی اللہ عنہ نے پہرے کا وقت ضائع کرنا پسند نہ کیا، وضو کر کے اللہ کے حضور قیام میں مصروف ہوگئے۔ دلسوز اور شیریں آواز میں سورت کہف کی تلاوت کرنے لگے۔ دشمن تعاقب میں تھا۔ اس نے دور سے کھڑا پہرے دار دیکھا تو اسے تیر کا نشانہ بنایا جو حضرت عباد رضی اللہ عنہ کے جسم میں پیوست ہوگیا۔ حضرت عباد رضی اللہ عنہ تلاوت پاک میں اس قدر محو تھے کہ تیر نکالا اور اسے دور پھینک دیا، لیکن تلاوت بدستور جاری رکھی، دشمن نے دوسرا تیر پھینکا، وہ بھی نشانے پر جا لگا۔ تلاوتِ قرآن میں مگن حضرت عباد رضی اللہ عنہ نے وہ تیر بھی جسم سے نکال پھینکا اور تلاوت جاری رکھی۔ دشمن نے تیسری مرتبہ پھر تیر مارا تو وہ بھی نشانے پر لگا، خون کا فوارہ پھوٹنے لگا، تب حضرت عباد رضی اللہ عنہ نے نماز ختم کی اور ساتھی کو جگایا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو گھبرا کر فرمایا: ’’عباد! تم نے مجھے پہلا تیر لگنے پر کیوں نہ جگا دیا؟‘‘ حضرت عباد رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ’’اللہ کی قسم! اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ذمے داری کا احساس نہ ہوتا تو میری جان چلی جاتی تب بھی میں نماز اور تلاوت کا سلسلہ منقطع نہ کرتا۔ تعلیماتِ قرآن کے نتائج: 1. قرآنِ کریم کے ساتھ صحابہ کرام علیہم السلام اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے اس گہرے تعلق ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ ان تمام فیوض و برکات سے مالا مال تھے، جن کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ وہ لوگ اپنی انفرادی زندگی میں ایمان، تقویٰ، نیکی، اللہ اور اس کے رسول سے محبت، توکل، قناعت، امانت، دیانت، صداقت، صبر اور شکر جیسے اوصافِ حمیدہ سے اس طرح متصف تھے کہ ان کے بعد دوبارہ ایسے انسان پیدا ہی نہ ہوں گے۔ 2. سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں عزت، عظمت، عروج اور ایسا غلبہ عطا فرمایا، جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ 3. یہ قرآن مجید کی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے د لوں سے کفار کی طاقت، قوت اور اسلحے کا خوف جاتا رہا۔
Flag Counter