Maktaba Wahhabi

266 - 611
تھا، جس کی انھیں سخت سزا دی گئی۔ سورۃ البقرۃ (آیت: ۸۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْھُمْ وَ ھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُھُمْ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ} ’’پھر تم وہی ہو جو اپنوں کا خون کرتے ہو اور ناحق زبردستی بعضے لوگوں کی مدد لے کر اپنے لوگوں میں سے ایک فرقے کا دیس نکالا کرتے ہو (یعنی ایک فرقہ کو زبردستی اپنا مددگار بنا کر اپنی ذات والوں کو شہر بدر کرتے ہو) پھر جن لوگوں کا دیس نکالا کرتے ہوا گروہ قید ہو کر تمھارے پاس آئیں تو تم چھڑائی (فدیہ) بھر کر ان کو چھڑا لیتے ہو حالانکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ کیا (اللہ کی) کتاب میں سے کچھ مانتے ہو کچھ نہیں مانتے؟ پھر جو لوگ تم میں ایسا کریں ان کا بدلہ اور کیا ہے، یہی کہ دنیا میں رسوا ہوں اور قیامت کے دن سخت عذاب میں لوٹ پڑیں اور اللہ تمھارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ اہلِ ایمان کو اس قبیح جرم سے باز آجا نا چاہیے، ورنہ ان کے لیے بھی وہی سزا ہو گئی جو اہلِ کتاب کو دی گئی۔ دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب۔۔۔! قرآنِ کریم کی کسی ایک آیت یا حکم کا استہزا کرنے کی سزا: نزولِ قرآن کے وقت بھی بعض لوگ قرآنی آیات اور احکام کا مذاق اڑاتے تھے، ان میں کافر، مشرک اور منافقین سبھی قسم کے لوگ شا مل تھے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: 1. اللہ تعالیٰ نے جب تحویلِ قبلہ کی آیت: {فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطَرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [البقرۃ: ۱۴۴] ’’پس اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر دو۔‘‘ نازل فرمائی تو اس کا یوں مذاق اڑایا گیا کہ سمجھ نہیں آتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح قبلہ کس طرف ہے؟ اگر پہلا صحیح تھا تو اسے کیوں چھوڑا گیا اور اگر دوسرا صحیح ہے تو پھر پہلا غلط تھا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے نبی ہوتے تو بیت المقدس
Flag Counter