Maktaba Wahhabi

330 - 611
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں پر بھی عذاب نہ آنے کی دعا کی، بلکہ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! میں ایسا کلمہ نہیں کہوں گا، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی۔‘‘ طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز نخلہ کے مقام پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کیسے جائیں؟ طائف کا حال ان لوگوں تک پہنچ گیا ہوگا، اب کفار پہلے سے کہیں بڑھ کر ستائیں گے۔ پھر چند روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشادگی کی امید تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ قریش کی طرف سے شر کا اندیشہ بھی تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط فرمائی۔ مکے کے پاس پہنچ کر غارِ حرا میں ٹھہر گئے، وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ذریعے سے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا۔ مطعم کا دادا نوفل بن عبد مناف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِ اعلیٰ ہاشم بن عبد مناف کا بھائی تھا اور عبد مناف قریش کے قبیلوں میں سب سے زیادہ معزز شاخ تھی، چنانچہ مطعم بن عدی نے ہامی بھر لی۔ اس نے اور اس کے بیٹوں نے ہتھیار سجا لیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے کا پیغام بھیجا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوئے۔ مطعم نے قریش میں یہ اعلان بھی کیا کہ وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پناہ دے چکا ہے، چنانچہ قریش نے بھی اس کی پناہ کو تسلیم کیا اور کوئی شرارت نہ کی۔ شقِ صد ر اور اسرا و معراج: معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو حصے ہیں: اسرا اور معراج۔ اسرا سے مراد ہے راتوں رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکے سے بیت المقدس تک تشریف لے جانا، جبکہ معراج سے مراد ہے عالمِ بالا میں تشریف لے جانا۔ یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ جب نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو بارِ رسالت اٹھائے تقریباً نصف عہدِ نبوت گزر گیا اور کفار و مشرکین کی طرف سے ایذا رسانی کی حد ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے کفار کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے جانے والے مصائب و آلام کا اثر کم کرنے، میدانِ دعوت و تبلیغ میں لگنے والے ذہنی و جسمانی زخموں کو مندمل کرنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جمعی و حوصلہ افزائی اور
Flag Counter