Maktaba Wahhabi

341 - 611
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور جانثاری کی بے نظیر مثالیں سیرت میں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ اہل ایمان سے جس محبت نبوی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان کے نزدیک ماں باپ، اولاد اور اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی محبت کر کے دکھائی۔ ان کے ہاں صرف محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے نہیں تھے، بلکہ عمل سے وہ اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے۔ بہر حال ہماری بات ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہو رہی تھی اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق سفر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیار اور بے پناہ محبت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ سفر حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے۔ کبھی دائیں تو کبھی بائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابو بکر کیا بات ہے؟ تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب پیچھا کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو پیچھے ہو جاتا ہوں اور جب یہ خدشہ سامنے آئے کہ راستے میں کوئی گھات لگاکر نہ بیٹھا ہو تو آگے ہو جاتا ہوں اور اسی طرح دائیں بائیں بھی چلتا ہوں کہ خدا نخواستہ کوئی دشمن وار کر ے تو مجھ پر ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت رہیں۔[1] یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار اور محبت کی انتہا تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ مکے سے مدینے تک کا یہ سفر اس طرح پیار محبت اور جانثاری کے عالم میں جاری رہا اور بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ وصولِ مدینہ: نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سفرِ ہجرت سے پہلے تین دن غارِ ثور میں رکے رہے، جب قریشِ مکہ کا جوشِ تلاش کچھ ٹھنڈا ہوا تو حسبِ پروگرام راستوں کا ماہر گائیڈ عبداللہ بن اریقط دو سواریاں لایا، جن پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقِ سفر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سوار ہو کر مدینہ منورہ کو روانہ ہوگئے۔ قاضی سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ غارِ ثور سے مدینے کی جانب روانگی یکم ربیع الاول بروز پیر (۱۶/ستمبر ۶۲۲ء) کو ہوئی۔[2]
Flag Counter