Maktaba Wahhabi

369 - 611
جشنِ میلاد یومِ ولادت پر.... یا .... یومِ وفات پر؟ حمد و ثنا اور خطبہ مسنونہ کے بعد: سورۃ الانفال (آیت: ۴۶) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ} ’’اور اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں(ناحق اختلاف کے لیے) جھگڑا نہ کرو (اگر کروگے) تو بودے بن جاؤ گے اور تمھاری ہوا جاتی رہے گی اور لڑائی کی تکلیفوں پر صبر کرو، کیونکہ اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے یا نہ منانے کے مسئلے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کب ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس دن وفات پائی؟ تاکہ کہیں غلطی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خوشیاں منانے کا نادانستہ جُرم تو نہ کرتے رہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات تو تمام مورخین اور سیرت نگاروں میں متفق علیہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ِبا سعادت کا دن پیر ہے اور اصحابِ تاریخ و سِیرَ پر ہی بس نہیں، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث مسلم شریف میں موجود ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ذٰلِکَ یَوْمٌ وُلِدْتُّ فِیہ اَوْ اُنْزِلَ عَلَيَّ فِیْہِ )) [1] ’’یہ وہ دن ہے جس میں میَں پیدا ہوا یا اسی دن یا مجھ پر وحی نازل کی گئی۔‘‘
Flag Counter