Maktaba Wahhabi

384 - 611
{ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ} [التوبۃ: ۱۰۸] ’’اُس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو خوب پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایسی قدیم مساجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی غرض سے تعمیر کی گئی ہوں، نیز صالحین کی جماعت اور ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے جو مکمل وضو کرنے اور طہارت و پاکیزگی کا صحیح صحیح اہتمام کرنے والے ہوں۔ مسنون ومستحب غسل: غسلِ واجب کی چار اقسام (جنابت، حیض، نفاس اور جماع سے غسل) کے علاوہ بعض اقسامِ غسل مسنون ومستحب ہیں۔ مثلاً جمعہ کے دن ہر عاقل وبالغ مسلمان کے لیے غسل کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید فرمائی۔ بعض احادیث میں اسے ضروری اور بعض میں اسے اچھا فعل قرار دیا گیا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار شرح منتقیٰ الأخبار‘‘ میں ہر قسم کی احادیث نقل کرنے کے بعد غسلِ جمعہ کے مستحب ہونے کا حکم اخذ کیا ہے۔ بعض احادیث کی رو سے عیدین کے غسل کے بھی مستحب اور کارِ ثواب ہونے کا پتا چلتا ہے۔ اسی طرح میت کو غسل دینے کے بعد، مشرک کو دفن کرنے کے بعد، غشی یا بے ہو شی کے بعد، احرام باندھتے وقت، دخولِ مکہ سے قبل اور وقوفِ عرفہ سے پہلے غسل کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔ مگر یہ سب اقسام فرض یا واجب نہیں بلکہ مسنون ومستحب اور کارِ ثواب ہونے کا درجہ رکھتی ہیں۔[1] البتہ ان تمام اقسام فرض وواجب اور مستحب و مسنون کے لیے غسل کا طریقہ تقریباً ایک جیسا ہی ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ غسلِ جنابت کے لیے عورت کا اپنے سرکی چٹیا (مینڈیاں وغیرہ) کھولنا ضروری نہیں جبکہ حیض و نفاس کے لیے غسل کرتے وقت بالوں کا کھولنا اور خوب مل کر دھونا ضروری ہے۔ مسنون طریقہ غسل: اب رہا غسل کا مسنون طریقہ تو اس کی عموماً دو شکلیں پائی جاتی ہیں:
Flag Counter