Maktaba Wahhabi

393 - 611
اس لیے تم اپنے مونہوں کو قرآن پڑھنے کے لیے پاک و صاف کرلو۔‘‘[1] یاد رہے کہ یہ تمام فضائل وبرکات صرف اُسی وقت حاصل ہوں گی جب وضو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مسنون طریقے سے کیا جائے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہ کی جائے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ مسواک کی لمبائی مقرر کرنا سنت سے ثابت نہیں۔ نیت: سب سے پہلے نیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ دیگر عبادات کی طرح وضو کے لیے بھی نیت شرط ہے، کیونکہ بخاری ومسلم اور سننِ اربعہ بلکہ تمام معتبر کتبِ حدیث میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔‘‘[2] اس حدیث کی عظمت ورفعت: یہ حدیث بخاری میں سب سے پہلی حدیث ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جامع ومانع اور کثیر الفائدہ ہونے کے اعتبار سے اس حدیث کا مقابلہ دوسری کوئی حدیث نہیں کر سکتی۔ بہر حال امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ’’المغني‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وضو بھی ایک عبادت ہے اور کوئی عبادت نیت کے بغیر نہیں ہوتی کیونکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کا تقرب، اس کی اطاعت اور اس کے فرمان کی بجا آوری ہوتا ہے اور یہ سب بغیر نیت کے حاصل نہیں ہوسکتا۔‘‘[3] (( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ )) والی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نیک اعمال میں نیت شرط ہے۔[4] نیت کے الفاظ کی شرعی حیثیت: یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وضو کی نیت تو واجب یا شرط ہے، مگر اس کے لیے یہ درست نہیں کہ کوئی شخص اس نیت کے الفاظ بھی ادا کرے اور اس پریشانی میں مبتلا ہوجائے کہ نیت کے
Flag Counter