Maktaba Wahhabi

429 - 611
قیام میں ہاتھ باندھنا: جب رفع یدین کے ساتھ تکبیرِ تحریمہ یعنی ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ سے فارغ ہو جائیں تو اب ہاتھوں کو کہاں رکھنا چاہیے اور انھیں کہاں باندھنا ہے؟ دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے: یہ نہیں ہے کہ جو ہاتھ چاہیں اوپر رکھ لیں اور جو چاہیں نیچے باندھ لیں، بلکہ ہاتھ باندھنے کی مسنون کیفیت یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر ہو، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حالت میں (نماز پڑھتے) دیکھا کہ میرا بایاں ہاتھ دائیں کے اوپر رکھا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھوں کو کھینچ کر (یعنی چھڑا کر) دائیں کو بائیں کے اوپر رکھ دیا۔‘‘[1] اس حدیث سے ان لوگوں کو بھی اپنی اصلاح کر لینی چاہیے جو لا علمی میں آج تک نماز کے لیے قیام کے وقت جب ہاتھ باندھتے ہیں تو دایاں ہاتھ نیچے اور بایاں اوپر رکھتے ہیں۔ ہاتھ باندھنے کی حکمتیں: ہاتھوں کو نیچے نہ لٹکانے بلکہ باندھ کر نماز میں کھڑے ہونے کی اہلِ علم نے بعض حکمتیں بھی بیان کی ہیں: 1. پہلی حکمت تو یہ ہے کہ یوں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا ایک حقیر و خاکسار سائل یا سوالی کی صورت ہوتی ہے اور بندہ چونکہ اس کائنات کے خالق و مالک اور اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے لہٰذا عجز و انکساری کے لائق ہاتھ باندھ کر یوں کھڑے ہونا ہی ہے۔ 2. بعض اہلِ علم نے تو ایک بڑی لطیف بات کہی ہے کہ نیت کا مقام دل ہے اور یہ ایک معروف بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کی حفاظت کرتا ہے تو اس پر اپنے ہاتھ رکھ لیتا ہے اور یوں ہاتھ باندھنے میں نماز سے حاصل ہونے والے نورِ ایمان کی حفاظت ہے۔ لہٰذا دل اور سینے پر
Flag Counter