Maktaba Wahhabi

432 - 611
اور ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کے بعد نماز میں بحالتِ قیام سورت فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ جو یہ ہے: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ . اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ . مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ . اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ . اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ . صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ. غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ} [الفاتحۃ] ’’اصل تعریف اللہ ہی کو سزاوار ہے جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے۔ بڑا مہربان رحم والا ہے۔ انصاف کے دن کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی (عبادت) بندگی کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو سیدھے راستے پر چلا۔ ان کا راستہ جن پر تو نے کرم کیا نہ کہ ان کا جن پر غصے ہوا اور نہ ان کا جو بہک گئے۔‘‘ فرضیتِ فاتحہ: نماز کی ہر رکعت میں امام اور منفرد (اکیلے نمازی) کے لیے اس سورت فاتحہ کا پڑھنا تمام ائمہ و فقہا اور محدثینِ کرام کے نزدیک بلا اختلاف فرض ہے اور اس سلسلے میں فرض و نفل اور بلند آواز یا پست آواز والی قراء ت سے پڑھی جانے والی نمازوں میں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔ صحیح مسلم اور موطا امام مالک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی اس کی وہ نماز ناقص ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی کہ وہ ناقص و نامکمل ہے۔‘‘[1] اسی حدیث میں آگے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور نماز کی اس تقسیم کی وضاحت میں ’’نماز‘‘ سورت فاتحہ کو قرار دیا گیا ہے۔ اسی لیے اس سورت کا نام ’’الصلوٰۃ‘‘ بھی ہے۔ یہ حدیث نماز میں سورت فاتحہ کی فرضیت کی دلیل ہے اور مقتدی کو بھی چاہیے کہ وہ بھی بلا آواز سورۃ الفاتحہ پڑھ لے، اس کے بہت سارے دلائل مفصل کتب میں مذکور ہیں۔[2]
Flag Counter