Maktaba Wahhabi

456 - 611
ہے کہ ہم پانچ وقت کی نمازوں کو باجماعت ادا کریں اور اس طرح ایک مسلمان منافقوں کی مشابہت سے بھی دور ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی جن بری اور قابلِ نفرت عادتوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک عادت نماز کے بارے میں سُستی کا مظاہرہ بھی ہے۔ عورت کی جماعت کا حکم: رہا معاملہ عورت کی جماعت کا تو اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: 1. پہلا یہ کہ آیا کوئی عورت کسی شکل میں مردوں کی امامت کرا سکتی ہے؟ اس سلسلے میں جمہور علماے امت کا مسلک یہ ہے کہ عورت کا مردوں کی امامت کرانا ناجائز ہے، ان کا استدلال ابن ماجہ کی اس روایت سے ہے: (( لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَۃٌ رَجُلًا )) [1] ’’کوئی عورت کسی مرد کی امامت ہر گز نہ کرائے۔‘‘ عورت چونکہ مردوں کے لیے اذان ہی نہیں کہہ سکتی تو وہ ان کی امامت بھی نہیں کراسکتی۔ 2. اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت صرف عورتوں کو جماعت کرا سکتی ہے یا نہیں؟ تو اس بات کا جواب متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اذن سے یہ جائز ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ وہ مردوں کی طرح بحیثیت امام آگے بڑھ کر الگ کھڑی نہیں ہوگی۔ بلکہ صف کے اندر ہی وسط میں رہے گی، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو سنن دار قطنی و بیہقی، مسند احمد اور مصنف عبد الرزاق میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے: (( اِنَّہَا أَمَّتْہُنَّ، فَقَامَتْ بَیْنَہُنَّ فِیْ صَلَوٰۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ )) [2] ’’انھوں نے عورتوں کو فرض نماز کی امامت کرائی اور وہ ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔‘‘ دوسری حدیث امام شافعی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے، جس میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں صراحت موجود ہے: (( اِنَّہَا أَمَّتْہُنَّ، فَقَامَتْ وَسَطاً )) [3] ’’انھوں نے عورتوں کی امامت کروائی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں۔‘‘
Flag Counter