Maktaba Wahhabi

464 - 611
آپ کے ساتھ وہاں چلے گئے جہاں ہم نے پڑاؤ ڈالا تھا، آپ بھی بیٹھ گئے اور ہم بھی، اسی دوران میں ان کی نظر اس جگہ کی طرف گئی جہاں انھوں نے نماز پڑھائی تھی۔ دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ ابھی تک کھڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا: یہ نفلی نماز پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: اگر مجھے نفلی نماز پڑھنی ہوتی تو میں ظہر کی نماز پوری پڑھتا (یعنی قصر نہ کرتا) پھر فرمایا: اے میرے بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کرلی۔ پھر میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سفر کیا، لیکن انھوں نے بھی دو رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی، یہاں تک کہ ان کی روحیں اللہ تعالیٰ نے قبض کرلیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا} ’’تم کو پیغمبرِ الٰہی کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اُس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روزِ قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو۔‘‘ [1] جہاں تک سنتِ فجر اور نمازِ وتر کا تعلق ہے تو انھیں سفر و حضر دونوں حالتوں میں نہیں چھوڑنا چاہیے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سنتِ فجر کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔[2] نمازِ وتر کی فضیلت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو مستقل ایک نماز قرار دیا ہے اور اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اس نماز کو عشا کے ساتھ جوڑ دینے کا سبب دراصل یہ ہے کہ اس نماز کا وقت نمازِ عشا کے بعد سے شروع ہوکر طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ بہر حال اس نماز کی بہت فضیلت و اہمیت
Flag Counter