Maktaba Wahhabi

473 - 611
ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآنِ کریم کی اس آیت پر غور کرنا چاہیے جس میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سنتا ہے، ویسے ہی ہم گنہگاروں کی بھی سنتا ہے اور اسے شرفِ قبولیت بخشتا ہے، لہٰذا دعا صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ما نگنی چاہیے، و ہی ہماری التجائیں سنتا ہے اور ہماری مصیبتوں کو ٹالتا بھی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم کسی وسیلے کے بغیر بر اہِ راست اپنے رب سے مانگیں جو ہمارا خالق ومالک ہے اور وہ ہی ہماری امیدوں کا مرکز ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس چیز کو اللہ تعالیٰ عطا کرے، اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز کو وہ روک لے، اس کو کوئی دینے والا نہیں۔‘‘[1] دعا کی اہمیت یہی کیا کم ہے کہ قرآنِ کریم کی ان آیات کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں اسے ’’عبادت ‘‘قرار دیا ہے۔[2] اس کو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابلِ قدر چیز بتایا ہے۔[3] بارانِ رحمت کے نزول میں رکاوٹ: قرآنِ کریم کی سابقہ آیت اور حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ بلند آواز کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے، یعنی اپنے دل میں اپنے رب کو یاد کرنا زیادہ افضل ہے۔ جیسا کہ اس بات کا پتا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ایک شخص کے واقعہ سے بھی چلتا ہے، واقعہ کچھ اس طرح ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل سخت قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جمع ہو گئے اور انھوں نے عرض کی: اے اللہ کی ہم کلامی کا شرف پانے والے کلیم اللہ! اپنے رب سے ہمارے لیے دعا مانگیں کہ وہ بارش برسا کر ہمیں پانی سے نوازے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک صحرا کی طرف نکل گئے۔ اُس وقت وہاں ان کی تعداد ستر ہزار یا اس سے بھی زیادہ تھی۔۔۔ وہ سب اللہ کے حضور اکٹھے ہو گئے اور دعائیں مانگنے لگے، جبکہ وہ پراگندہ بال وفقیرانہ حال تھے، بھوکے اور پیاسے بھی تھے۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے بھی یوں دعامانگنا شروع کیا: یا الٰہی! ہمیں بارش عطافرما۔ ہم پراپنی رحمتیں نازل کر اور شیر خوار بچوں،
Flag Counter