Maktaba Wahhabi

511 - 611
’’جس نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے خالص اُس کی رضا جوئی کے لیے رمضان المبارک کی راتوں کو قیام کیا، اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے گئے۔‘‘[1] 2. نمازِ تراویح کا حکم: قیامِ رمضان یا نمازِتراویح کا ادا کرنا فرض نہیں بلکہ سنّت ہے اور اس سلسلے میں ائمہ و فقہاے مذاہب میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔ لہٰذا وہ حضرات جو جھٹ سے فتویٰ داغ دیتے ہیں کہ جس نے تراویح نہ پڑھی اس کا کوئی روزہ نہیں، انھیں اپنے اس قول کی اصلاح کرلینا چاہیے۔ البتہ ماہِ رمضان المبارک کے شب و روز انتہائی برکت و فضیلت والے ہیں، لہٰذا اس ماہ میں صدقہ و خیرات، تلاوتِ قرآنِ کریم اور نوافل جس قدر بھی ممکن ہوں کم ہیں۔ لیکن جو آدمی کسی عذر کی وجہ سے نمازِ تراویح ادا نہیں کرسکا، وہ صبح اپنا روزہ رکھ سکتا ہے اور اس کے روزے میں کسی قسم کا کوئی فرق یا نقص نہیں آتا۔ اس کی دلیل: نمازِ تراویح کی ترغیب دلانے کے لیے اتنی سخت فتویٰ بازی کے بجائے مسنون طریقہ اختیار کرنے ہی میں خیر و برکت ہے اور وہ مسنون طریقہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو رمضان کی راتوں میں قیام کرنے [نمازِ تراویح پڑھنے ] کی ترغیب دلایا کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں عزیمت [وجوباً پابندی ] کا حکم نہیں دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ’’جس نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اسی کی رضا و خوشنودی کے حصول کی خاطر رمضان کی راتوں کو قیام کیا، اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے گئے۔‘‘[2] ایک اور حدیث میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور قیام کا طریقہ میں نے تمھارے لیے مقرر کیا ہے، لہٰذا جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے
Flag Counter