Maktaba Wahhabi

512 - 611
اور راتوں کو قیام کیا، وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہوگیا، جیسے آج ہی پیدا ہوا ہے۔‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک رمضان میں تین دن قیام اللیل یعنی نمازِ تراویح باجماعت ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی نہایت ذوق و شوق کے ساتھ تین دن یہ نماز پڑھی۔ چوتھے دن بھی صحابہ رضی اللہ عنہم قیام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر رہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے اور اس کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ ’’مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں رمضان المبارک میں یہ قیام اللیل تم پر فرض نہ کردیا جائے۔‘‘ اس لیے اس کے بعد یہ قیام اللیل بطورِ نفلی نماز کے انفرادی طور پر ہوتا رہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں یہی معمول رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت تمیم داری اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ رمضان المبارک میں اس قیام اللیل کا باجماعت اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر دوبارہ اس سنت کا احیا عمل میں آیا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش کے باوجود فرض ہوجانے کے خوف سے چھوڑدیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قیام اللیل فرض نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک سنت نماز کی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں اسے قیام اللیل کہا جاتا تھا، یعنی تہجد کی نماز، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نمازِ تہجد کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے لے کر رات کے آخری پہر یا طلوعِ فجر تک ہے، اس کے دوران میں کسی بھی وقت اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ 3. رکعاتِ تراویح کی تعداد: نمازِ تراویح کی رکعتیں کتنی ہیں؟ اس سلسلے میں موجودہ عمل تو آپ کے سامنے ہے کہ کوئی آٹھ (8) تراویح اور تین(3) وتر، کُل گیارہ(11) رکعتیں پڑھتا ہے، کوئی دس (10) تراویح اور تین (3) وتر، کُل تیرہ (13) رکعتیں پڑھتا ہے اور کوئی بیس تراویح (20) اور تین (3) وتر، کُل تئیس (23) رکعتیں پڑھتا ہے۔ اس سلسلے میں جو احادیث ملتی ہیں، ان میں سے پہلی حدیث صحیح بخاری و مسلم، سنن ابو داود و ترمذی میں ہے جس میں حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں: ’’انھوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ماہِ رمضان (کی راتوں) میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter