Maktaba Wahhabi

518 - 611
میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘ غرض اس بات پر پوری امت کے ائمہ اہلِ سنت کا اتفاق ہے کہ روزے کا وقت غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا غروبِ شمس کا یقین ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہیے۔[1] 10. افطار ی میں تاخیر پر وعید: افطاری میں تاخیر کرنے سے حدیث میں منع کیا گیا ہے اور اس فعل کو یہود ونصاریٰ کا فعل قراردیا گیا ہے۔ چنانچہ سنن ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دینِ اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ اس میں تاخیرکرتے ہیں۔‘‘[2] ان تمام ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ سورج کے غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہیے اور تاریکی کے پھیلنے یا اندھیرا چھانے اور ستارے نظر آنے کا انتظار کرنا یہود ونصاریٰ کی عادت ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ 11. افطاری کے لیے مسنون اشیا: جہاں تک افطاری سے متعلقہ اشیا کا مسئلہ ہے تو روزہ کسی بھی پاک وحلال چیز سے افطار کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی پابندی یا سختی نہیں ہے، البتہ روزہ افطار کرنے کے لیے افضل اشیا کی ترتیب یہ ہے کہ کھجور یا چھوارے سے افطار کریں۔ اگر یہ میسر نہ آسکیں تو پھر پانی سے افطار کرلیں یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز کھالیں۔ حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’تم میں سے جب کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے، کیونکہ یہ باعثِ برکت ہے اور اگر وہ میسر نہ ہو تو پانی سے افطارکرلے، کیونکہ پانی پاک کر دینے والا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter