Maktaba Wahhabi

541 - 611
ترمذی شریف میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’پیر اور جمعرات کو بندوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور مجھے یہ بات محبوب لگتی ہے کہ میرے عمل جب اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں تو اُس وقت میں روزے سے ہوں۔‘‘ پیر کے روزے کی فضیلت: حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اس دن مَیں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی کا آغاز ہوا تھا۔‘‘[1] یعنی اس دن قرآنِ کریم کا نزول ہوا۔ لہٰذا جسے توفیق ہو وہ ہر ہفتے میں پیر(سوموار) اور جمعرات کے روزے رکھے۔یہ مسنون اور کارِ ثواب ہیں۔ صومِ داودی علیہ السلام : اسی طرح صوم داودی ہیں جن کا بہت اجر و ثواب ہے۔ جسے توفیق ہو وہ ہر دوسرے دن کا روزہ بھی رکھ سکتا ہے، یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔ صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مخاطب ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر ماہ تین دن کے روزے رکھو، میں نے عرض کی: مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے برابر روزے کم کراتے رہے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن ترک کرو، یہ افضل ترین روزے ہیں۔ میرے بھائی حضرت داود ( علیہ السلام ) کا یہی طریقہ تھا۔‘‘ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن چھٹی۔[2] مسلم شریف میں اس سے آگے بڑھنے اور بلا ناغہ ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( لَا صَامَ وَلَا اَفْطَرَ )) اَوْ قَالَ (( لَمْ یَصُمْ وَلَمْ یُفْطِرْ )) [3]
Flag Counter