Maktaba Wahhabi

557 - 611
اس کی حکمت: صدقہ فطر ادا کرنے میں حکمت کیا ہے؟ اس سلسلے میں سنن ابو داود میں ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر فرض فرمایا، تاکہ روزے دار سے روزے کی حالت میں اگر کوئی فضول ونازیبا بات سرزد ہوگئی ہو تو وہ اُس سے پاک ہو جائے اور مسکینوں کو (کم از کم عید کے روز خوب اچھی طرح سے) کھانا میسر آجائے۔‘‘[1] زکاۃ الفطر کی اس حکمت پر غور فرمائیں اور اندازہ کریں کہ ہمارے رسول رحمۃ لّلعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو غربا و مساکین کا کتنا خیال رہتا تھا۔ پھر اس فطرانے کے ساتھ ہی سالانہ زکات اور دیگر نفلی صدقات و خیرات کو ملا کر دیکھیں کہ دینِ اسلام نے اس صفحہ ہستی سے غربت و افلاس کے خاتمے کے ضامن کتنے حل پیش کیے ہیں۔ فطرانہ کن پر فرض ہے؟ یہ صدقہ فطر صرف انہی لوگوں پر واجب نہیں جنھوں نے روزے رکھے ہوں، بلکہ جمہور ائمہ کے نزدیک یہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے، کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کا ایک صاع صدقہ فطر کے طور پر ہر غلام و آزاد، مرد و زن اور چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔‘‘ فطرانے کی مقدار: اب رہا یہ مسئلہ کہ فطرانے کی مقدار کتنی ہے؟ تو اس سلسلے میں صحیح بخاری ومسلم، سننِ اربعہ اور مسند احمدکی احادیث میں ایک صاع کا ذکر ہے۔[2] صاعِ شرعی کا وزن: صدقہ فطر اگر غلّے کی مختلف اجناس سے نکالنا ہو تو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جس پیمانے کو صاع کہا گیا ہے، اس کی مقدار وزن کے حساب سے پونے تین سیر یا اڑھائی کیلو گرام کے برابر ہے۔
Flag Counter