Maktaba Wahhabi

561 - 611
21. عید کی نماز کے لیے بھی دوسری جماعت کروائی جاسکتی ہے۔[1] 22. عید مبارک کہنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو (( تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ )) کہا کرتے تھے۔[2] 23. عید وجمعہ ایک ہی دن میں آجائیں تو جمعے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ دونوں پڑھنی بہتر ہیں، لیکن عید پڑھنے کے بعد اگر جمعہ کے بجائے صرف نمازِ ظہر ادا کی جائے تو بھی درست ہے۔[3] ثمراتِ رمضان نمازِ پنج گانہ کے اہتمام کی تربیت: رمضان المبارک میں آپ نے پنجگانہ نماز کے ساتھ ساتھ تراویح ونوافل کا خوب اہتمام کیا، اور انھیں باجماعت ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور تلاوتِ قرآن سے اپنے قلب وروح کو منور کیا۔ پورا مہینا ایسا کرنے سے ایک طرح کی تربیت وٹریننگ ہوجاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ سب امور صرف رمضان المبارک کی حد تک ہی تھے اورکیا عید کے ساتھ ہی ان امور کو بھی سال بھر کے لیے الوداعی سلام کر دیا جائے؟ اور تلاوت ونوافل توکجا، کیا نمازِ پنجگانہ کی فکر بھی نہیں رہے گی؟ جیسا کہ کسی موسمی قسم کے مسلمان یا جاہل نادان کا مقولہ ہے: دو رکعت نماز عید الفطر کھائی سویّاں اور گئی فکر بھئی! تراویح کی فکر تو آیندہ سال تک واقعی ختم ہوگئی مگر کیا فرض نمازوں کی فکر بھی ساتھ ہی جاتی رہے گی؟ نہیں، ہرگزنہیں۔ نمازِ پنجگانہ ہر مسلمان پر ہر روز فرض ہے، چاہے رمضان ہویا کوئی دوسرا مہینا۔ لہٰذا نمازوں کو ادا کرنے کا وہی اہتمام رہنا چاہیے جس کا سبق ہم نے رمضان المبارک میں سیکھا ہے اور تاحینِ حیات یہ مسلمانوں پر فرض ہے، کیونکہ سورت حجر کی آخری آیت (۹۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ}
Flag Counter