Maktaba Wahhabi

568 - 611
اس آیت سے معلوم ہوا کہ زکات انسان کے اخلاق و کردار کی پاکیزگی کا بڑا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ النور (آیت: ۵۶) میں اللہ عز وجل کا فرمان ہے: { وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} ’’اور نماز پڑھتے رہو اور زکات دیتے رہو اور پیغمبرِ الٰہی کے فرمان پر چلتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘ اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رحمت اور مدد حاصل ہوئی تھی۔ سورۃ الروم (آیت: ۳۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ} ’’جو تم سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم زکات دیتے ہو اور اس سے اللہ کی رضامندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجبِ برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دو چند کرنے والے ہیں۔‘‘ یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے، لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی نجاست بالآخر دنیا و آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ زکات کے دو فائدے: زکات اور صدقہ کے دو فائدے ہیں: 1. زکات و صدقات سے روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ 2. قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گناملے گا، جس طرح حدیث میں ہے: ’’حلال کمائی سے کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر پہاڑ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔‘‘[1]
Flag Counter